عراقiorFf 23 xx 7oX 19 aq#mn e
عراق | |
---|---|
پرچم
|
نشان
|
ترانہ:موطنی | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 33°N 43°E / 33°N 43°E [1] |
پست مقام | خلیج فارس (0 میٹر) |
رقبہ | 437072 مربع کلومیٹر |
دارالحکومت | بغداد |
سرکاری زبان | عربی[2]، کردی زبان[2] |
آبادی | 33417476 (2013)[3] |
اوسط عمر | 69.183 سال (1999)[4]
69.169 سال (2000)[4] 69.081 سال (2001)[4] 68.932 سال (2002)[4] 68.742 سال (2003)[4] 68.537 سال (2004)[4] 68.35 سال (2005)[4] 68.217 سال (2006)[4] 68.156 سال (2007)[4] 68.177 سال (2008)[4] 68.283 سال (2009)[4] 68.465 سال (2010)[4] 68.702 سال (2011)[4] 68.963 سال (2012)[4] 69.219 سال (2013)[4] 69.458 سال (2014)[4] 69.672 سال (2015)[4] 69.862 سال (2016)[4] |
حکمران | |
طرز حکمرانی | وفاقی جمہوریہ |
صدر عراق | برہم صالح (2 اکتوبر 2018–) |
وزیر اعظم عراق | عادل عبد المہدی (25 اکتوبر 2018–) |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 1932 |
عمر کی حدبندیاں | |
شادی کی کم از کم عمر | 18 سال |
الحاق اور رکنیت | |
اقوام متحدہ (21 دسمبر 1945–) عرب لیگ (22 مارچ 1945–) تنظیم تعاون اسلامی بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی (27 دسمبر 1945–) بین الاقوامی انجمن برائے ترقی (29 دسمبر 1960–) بین الاقوامی مالیاتی شرکت (27 دسمبر 1956–) کثیرالفریق گماشتگی برائے ضمانت سرمایہ کاری (6 اکتوبر 2008–) انٹرپول[5] تنظیم برائے ممانعت کیمیائی ہتھیار[6] یونیسکو (21 اکتوبر 1948–)[7] عالمی ڈاک اتحاد[8] عالمی ٹیلی مواصلاتی اتحاد (12 نومبر 1928–)[9] |
|
مشترکہ سرحدیں | ترکی (Iraq–Turkey border)
سوریہ (Iraq–Syria border) اردن (Iraq–Jordan border) سعودی عرب (Iraq–Saudi Arabia border اور سعودی عراقی غیر جانبدار علاقہ) کویت (Iraq–Kuwait border) ایران (ایران عراق سرحد) |
خام ملکی پیداوار | |
← کل | 197715736040.609 امریکی ڈالر (2017)[10]
|
← فی کس | 7445.104 بین الاقوامی ڈالر (1990)[11] |
جی ڈی پی تخمینہ | |
← فی کس | 231 امریکی ڈالر (1960)[12] 245 امریکی ڈالر (1961)[12] 254 امریکی ڈالر (1962)[12] 250 امریکی ڈالر (1963)[12] 288 امریکی ڈالر (1964)[12] 312 امریکی ڈالر (1968)[12] 313 امریکی ڈالر (1969)[12] 330 امریکی ڈالر (1970)[12] 376 امریکی ڈالر (1971)[12] 388 امریکی ڈالر (1972)[12] 468 امریکی ڈالر (1973)[12] 1018 امریکی ڈالر (1974)[12] 1151 امریکی ڈالر (1975)[12] 1471 امریکی ڈالر (1976)[12] 1592 امریکی ڈالر (1977)[12] 1847 امریکی ڈالر (1978)[12] 2852 امریکی ڈالر (1979)[12] 3911 امریکی ڈالر (1980)[12] 2735 امریکی ڈالر (1981)[12] 2950 امریکی ڈالر (1982)[12] 2738 امریکی ڈالر (1983)[12] 3077 امریکی ڈالر (1984)[12] 3099 امریکی ڈالر (1985)[12] 2957 امریکی ڈالر (1986)[12] 3475 امریکی ڈالر (1987)[12] 3753 امریکی ڈالر (1988)[12] 3852 امریکی ڈالر (1989)[12] 10297 امریکی ڈالر (1990)[12] 1391 امریکی ڈالر (2004)[12] 1849 امریکی ڈالر (2005)[12] 2351 امریکی ڈالر (2006)[12] 3129 امریکی ڈالر (2007)[12] 4521 امریکی ڈالر (2008)[12] 3735 امریکی ڈالر (2009)[12] 4502 امریکی ڈالر (2010)[12] 5854 امریکی ڈالر (2011)[12] 6651 امریکی ڈالر (2012)[12] 6925 امریکی ڈالر (2013)[12] 6703 امریکی ڈالر (2014)[12] 4914 امریکی ڈالر (2015)[12] 4584 امریکی ڈالر (2016)[12] 5017 امریکی ڈالر (2017)[12] |
کل ذخائر | 259340000 امریکی ڈالر (1960)[13] 217949700 امریکی ڈالر (1961)[13] 193445580 امریکی ڈالر (1962)[13] 295073520 امریکی ڈالر (1963)[13] 251168400 امریکی ڈالر (1964)[13] 235056320 امریکی ڈالر (1965)[13] 324963040 امریکی ڈالر (1966)[13] 369156000 امریکی ڈالر (1967)[13] 490617600 امریکی ڈالر (1968)[13] 477546400 امریکی ڈالر (1969)[13] 471879630 امریکی ڈالر (1970)[13] 623398834 امریکی ڈالر (1971)[13] 891753225 امریکی ڈالر (1972)[13] 1840097013 امریکی ڈالر (1973)[13] 3861960542 امریکی ڈالر (1974)[13] 3134222051 امریکی ڈالر (1975)[13] 4986343059 امریکی ڈالر (1976)[13] 7503115537 امریکی ڈالر (1977)[13] 6840025568 امریکی ڈالر (1978)[13] 6915979524 امریکی ڈالر (1979)[13] 6998647402 امریکی ڈالر (1980)[13] 7007264890 امریکی ڈالر (1981)[13] 6950021390 امریکی ڈالر (1982)[13] 6753651473 امریکی ڈالر (1983)[13] 6744749010 امریکی ڈالر (1984)[13] 6744710984 امریکی ڈالر (1985)[13] 6744700000 امریکی ڈالر (1986)[13] 6751949358 امریکی ڈالر (1987)[13] 6744726913 امریکی ڈالر (1988)[13] 6744726283 امریکی ڈالر (1989)[13] 7906699441 امریکی ڈالر (2004)[13] 12200841776 امریکی ڈالر (2005)[13] 20051755763 امریکی ڈالر (2006)[13] 31454865408 امریکی ڈالر (2007)[13] 50101814826 امریکی ڈالر (2008)[13] 44332622538 امریکی ڈالر (2009)[13] 50622110875 امریکی ڈالر (2010)[13] 61033126541 امریکی ڈالر (2011)[13] 70327020092 امریکی ڈالر (2012)[13] 77747259730 امریکی ڈالر (2013)[13] 66281659153 امریکی ڈالر (2014)[13] 53992019540 امریکی ڈالر (2015)[13] 45298561706 امریکی ڈالر (2016)[13] 49315419400 امریکی ڈالر (2017)[13] |
اشاریہ انسانی ترقی | |
اشاریے | 0.685 (2017)[14]
|
شرح بے روزگاری | 16 فیصد (2014)[15] |
دیگر اعداد و شمار | |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت+03:00 (معیاری وقت) متناسق عالمی وقت+04:00 (روشنیروز بچتی وقت) |
ٹریفک سمت | دائیں[16] |
ڈومین نیم | iq. |
آیزو 3166-1 الفا-2 | IQ |
بین الاقوامی فون کوڈ | +964 |
ترمیم |
عراق ایشیا کا ایک اہم عرب اور مسلمان ملک ہے۔ یہ قدیم میسوپوٹیمیا (مابین النھرین)، قدیم شام کے کچھ صحرائی علاقوں اور مزید کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔ تیل کے ذخائر میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے جنوب میں کویت اور سعودی عرب، مغرب میں اردن، شمال مغرب میں شام، شمال میں ترکی اور مشرق میں ایران (کردستان علاقہ) ہے۔ اسے ایک محدود سمندری رسائی بھی حاصل ہے جو خلیج فارس کے ساحل ام قصر پر ہے۔ جو بصرہ سے قریب ہے۔ عراق دنیا کے قدیم ترین ممالک میں شامل ہے جس نے کئی تہذیبوں کو جنم دیا ہے۔ فلسطین کی طرح اسے انبیا کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا تعلق اسی علاقے سے تھا اور بروایتے حضرت آدم علیہ السلام نے بھی اس کے شہر قرنہ کو اپنا وطن بنایا تھا۔ 2003ء میں اس پر امریکا نے قبضہ کر لیا تھا جو تا حال جاری ہے البتہ ایک برائے نام حکومت قائم ہے۔ اس کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے البتہ کافی تعداد میں مسیحی بھی ہیں۔ اس کا دار الحکومت بغداد ہے جو اس کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کے علاوہ نجف، کوفہ، بصرہ، کربلا، سامرا، موصل اور کرکوک اس کے مشہور شہر ہیں۔ دریائے دجلہ اور فرات اس کے مشہور دریا ہیں۔ ان کے درمیان میں کی وادی انتہائی زرخیز ہے اور اس میں سات سے نوہزار سال سے بھی پرانے آثار ملتے ہیں۔ سمیری، اکادی، اسیریا اور بابل کی تہذیبیں اسی علاقے میں پروان چڑھیں اور فنا ہوئیں۔
فہرست
- 1 مختصر تاریخ
- 1.1 قبل از تاریخ
- 1.2 زمانہ قدیم
- 1.3 اسلامی عہد
- 1.4 زمانہ جدید
- 1.5 امریکی قبضہ اور اس کے بعد
- 2 انتظامی ڈھانچہ
- 3 عراق کے شہر
- 4 اعداد و شمار
- 5 جغرافیہ
- 6 معیشت
- 7 سیاست
- 8 بیرونی روابط
- 9 حوالہ جات
مختصر تاریخ[ترمیم]
قبل از تاریخ[ترمیم]
عراق قدیم ترین انسانوں کی رہائش گاہ تھی۔ طوفانِ نوح یہیں پر آیا تھا۔ عراق سے ملنے والے آثارِ قدیمہ ثابت کرتے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں بھی یہاں کے لوگ باقاعدہ زبان، ثقافت اور مذہب رکھتے تھے۔ عراق کے شمال مشرق میں شانیدر کے غاروں سے ملنے والے نیاندرتھال انسان کے ڈھانچوں سے، جو پچاس سے ساٹھ ہزار سال پرانے ہیں، یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بولنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور رسومات ادا کیا کرتے تھے مثلاً اپنے مردے پھولوں کے ساتھ دفناتے تھے۔[17]
زمانہ قدیم[ترمیم]
عراق کو پہلی انسانی تہذیب کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔ عراق کا قدیم نام میسوپوٹیمیا ہے۔ مگر یہ وہ نام ہے جو یونانیوں نے انہیں دیا تھا جس کا مطلب یونانی زبان میں ،دریاووں کے درمیان، کے ہیں چونکہ یہ تہذیب دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے درمیان میں پروان چڑھی۔ اسے ہم تہذیب مابین النھرین یا بلاد الرافدين کہتے ہیں۔ یہ علاقہ سمیریا، اکادی، اسیریائی، کلدانی، ساسانی اور بابل کی تہذیبوں کا مرکز تھا جو پانچ ہزار سال قبل از مسیح باقی دنیا میں بھی نفوذ کر گیا۔ انھوں نے دینا کو لکھنا سکھایا اور ابتدائی ریاضیات، فلسفہ اور سائنسی علوم کے اصول دیے۔ اکادی سلطنت لبنان کے ساحلوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ لبنان وہ علاقہ ہے جس نے ابتدائی حروف بنائے اور سمندری جہاز رانی کی ابتدا کی۔ اکادیوں کے بعد سمیریوں اور اس کے بعد بابل کی تہذیب نے فروغ پایا۔ بابل کی تہذیب میں حمورابی کی بادشاہت میں انھوں نے دنیا کو شہریت کے ابتدائی قوانین دیے۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں یہ علاقہ اگلے چار سو سال کے لیے سائرس اعظم کی سلطنتِ فارس کا حصہ بن گیا۔ جس کے بعد سکندر اعظم نے یہ علاقہ فتح کیا جو دو سو سال کے لیے یونانی سلطنت کے زیرِنگیں رہا۔ سکندر کے بعد ایرانیوں نے ساتویں صدی عیسوی تک راج کیا۔
اسلامی عہد[ترمیم]
مسلمانوں نے ساتویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ فتح کیا۔ مسلمانوں کے خلیفہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کے شہر کوفہ کو اپنا دار الخلافہ بنایا۔ اس کے بعد عربوں نے اموی اور عباسی سلطنت کی صورت میں عراق پر حکومت کی۔ عباسیوں نے بغداد کو پہلی دفعہ دار الحکومت بنایا۔ 1258 عیسوی میں منگولوں نے ہلاکو خان کی قیادت میں بغداد کو تاراج کیا (دیکھیے: سقوط بغداد)۔ اس کے بعد یہ 16 ویں صدی عیسوی میں عثمانی سلطنت کا حصہ بنا جس کی یہ حیثیت جنگ عظیم اول تک برقرار رہی۔
زمانہ جدید[ترمیم]
جنگ عظیم اول کے دوران میں برطانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں فرانس اور برطانیہ نے بندر بانٹ کر کے مشرق وسطی کے حصے بخرے کیے۔ 1932 میں انگریزوں نے اسے آزادی دی اور حکومت شریف مکہ کے بھائی امیر فیصل کو ترکوں کے خلاف جنگ لڑنے کے معاوضے کے طور پر دی۔ مگر عراق میں برطانیہ کے فوجی اڈے برقرار رہے اور اصل طاقت اسی کے پاس تھی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا کا اثر اس خطے میں بڑھنا شروع ہو گیا۔ 1956ء میں عراق، پاکستان، ترکی، ایران، امریکا اور برطانیہ کے درمیان میں معاہدہ بغداد ہوا جو مصر کے جمال عبدالناصر اور شام کے خلاف ایک محاذ بن گیا۔ اس پر جمال عبدالناصر نے عراقی بادشاہت کے خلاف آواز اٹھائی جس کا اثر عراق میں بھی ہوا۔ 14 جولائی 1958ء کو بریگیڈئیر جنرل عبدالکریم قاسم اور کرنل عبدالسلام عارف کی قیادت میں عراقی فوج نے انقلاب برپا کیا اور عراقی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ انھوں نے عراق کو جمہوریہ قرار دیا اور معاہدہ بغداد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بریگیڈئیر جنرل عبدالکریم قاسم اور کرنل عبدالسلام عارف میں بعد میں اختلافات پیدا ہو گئے کیونکہ کرنل عبدالسلام عارف مصر کے ساتھ گہرے تعلقات کے حامی تھے مگر بریگیڈئیر جنرل عبدالکریم قاسم ایسا نہیں چاہتے تھے۔ اس وقت کرنل عبدالسلام عارف کو فارغ کر دیا گیا۔ 1963ء میں ایک اور فوجی بغاوت میں بعث پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور کرنل عبدالسلام عارف کو صدر بنا دیا گیا۔ یہ وہی پارٹی ہے جس کے رکن صدام حسین بعد میں صدر بن گئے۔ درمیان میں کچھ وقت کے لیے اقتدار بعث پارٹی کے ہاتھ سے نکل گیا مگر انھوں نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1968ء میں تیل کی برطانوی کمپنی کو فارغ کر کے ایک فرانسیسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر لیا گیا۔ مگر بعد میں تیل کی صنعت کو قومیا لیا گیا۔ یہی وہ دور ہے جس میں عراق نے کچھ اقتصادی ترقی کی۔ جو پہلے برطانوی لوٹ کھسوٹ کے ساتھ ممکن نہیں تھی۔ بعث پارٹی کے صدام حسین کی حکومت 2003ء تک قائم رہی جس کے بعد امریکا نے عراق پر قبضہ کر لیا۔ صدام حسین کے زمانے میں ایران کے ساتھ ایک طویل وقت (ایران عراق جنگ) لڑی گئی جس میں عراق کو سعودی عرب اور امریکا کی آشیر باد حاصل تھی۔ مگر جب صدام حسین نے کویت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو سعودی عرب اور امریکا نے اس کے خلاف جنگ لڑی۔ اس جنگ میں امریکا نے ترکی اور سعودی عرب کا علاقہ عراق کے خلاف استعمال کیا۔ کویت پر عراق کا قبضہ چھڑا لیا گیا مگر اس کے بعد بھی امریکا کے عزائم جاری رہے حتیٰ کہ امریکا نے مارچ 2003ء میں ایک اور جنگ (جنگ عراق 2003ء) میں عراق پر قبضہ کر لیا۔
امریکی قبضہ اور اس کے بعد[ترمیم]
آج کل عراق میں ایک برائے نام حکومت قائم ہے جو 30 جنوری 2005ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی مگر امریکی قبضہ جاری ہے اور اصل طاقت اسی کے پاس ہے۔ تیل کی عراقی دولت کو برطانیہ اور امریکا دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ یہ دور ایک خون آلود دور کے طور پر یاد کیا جائے گا کیونکہ ان چند سالوں میں اتنی عراقی عوام قتل ہوئی ہے جو پچھلے پچاس سال میں نہیں ہوئی۔ عراق کے سابق صدر صدام حسین کو امریکی کی زیرِنگیں حکومت نے پھانسی دے دی ہے جس سے فرقہ وارانہ فساد میں اضافہ ہوا ہے۔ استعماری طاقتیں سنی، شیعہ اور کرد مسلمانوں میں اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں جس کا منطقی نتیجہ عراق کی تقسیم کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کی نظریں ایران اور پاکستان پر لگی ہوئی ہیں جو اس وقت ھر طرف سے امریکی افواج یا ان کی ساتھی حکومتوں کے درمیان میں گھری ہوئی ہیں۔ اس سے مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ ایک بار پھر بدلنے کا امکان ہے۔
انتظامی ڈھانچہ[ترمیم]
عراق کو 18 محافظات (محافظۃ صوبہ کا ہم معنی ہے) میں تقسیم کیا گیا ہے جو کچھ یوں ہیں۔
|
|
عراق کے شہر[ترمیم]
|
|
|
|
|
اعداد و شمار[ترمیم]
عراق کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔ (جولائی2005ء میں 26,074,906)۔ ان میں سے 80 فی صد عرب ہیں اور باقی کرد (پندرہ فی صد کے قریب) اور دوسری نسلوں(ترک، اسیریائی وغیرہ) سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسلمان 97 فی صد ہیں جن میں سے ساٹھ فی صد کے قریب شیعہ مسلمان ہیں۔[18] اھلسنت کی اکثریت شافعی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ تین فی صد افراد دوسرے مذاہب س تعلق رکھتی ہے جن میں زیادہ مسیحی ہیں۔ اور کچھ یہودی، بہائی وغیرہ ہیں۔ عراق کی زندہ آبادی کی اوسط عمر 19.7 سال ہے۔ اور متوقع عمر 67 سال کے قریب ہے۔ 25 سے 30 فی صد افراد بے روزگار ہیں اور یہ شرح بڑھ رہی ہے۔
عراق کے اعداد و شمار | |
آبادی | 26 783 383 |
آبادی کی شرح نمو | 2,66 فی صد |
اوسط عمر سالوں میں (کل آبادی) - مرد - خواتین |
19.7 19.6 19.8 |
آبادی کی تقسیم عمر کے حساب سے 0-14 سال 15-64 سال 65 سال اور زائد |
39.7 فی صد 57.3 فی صد 3.0 فی صد |
آبادی کی تقسیم مذہب کے حساب سے شیعہ مسلمان سنی مسلمان مسیحی، بہائی اور دوسرے |
60-65 فی صد 32-37 فی صد 3.0 فی صد |
آبادی کی تقسیم نسلی حساب سے عرب کرد ترک، اسیریائی اور دوسرے |
75-80 فی صد 15-20 فی صد 5 فی صد |
بحوالہ:اقوام متحدہ۔2005 |
جغرافیہ[ترمیم]
عراق کا کل رقبہ 168,743 مربع میل (437,072 مربع کلو میٹر) ہے۔ اس کا زیادہ تر علاقہ صحرائی ہے مگر دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے درمیان میں کا علاقہ انتہائی زرخیز ہے۔ اس علاقے کو میسوپوٹیمیابلادالرافدين یا مابین النھرین کہتے ہیں۔ زیادہ تر شہر انہی دو دریاؤں کے کناروں پر آباد ہیں۔ عراق کا ساحلِ سمندر خلیجِ فارس کے ساتھ بہت تھوڑا ہے جو ام قصر کہلاتا ہے اور بصرہ کے پاس ہے۔ عراق عرب کی آخری سرزمین کہلائی جا سکتی ہے کیونکہ اس کے بعد ایران اور پاکستان ہیں۔ عراق کے ایک طرف کویت ہے جو کسی زمانے میں عراق ہی کا حصہ تھا۔ ایک طرف شام ہے اور ایک طرف سعودی عرب۔ عراق کو اپنے تیل کے ذخائر کی وجہ سے بہت اہمیت حاصل ہے جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ عراق میں خشک گرمیوں کا موسم آتا ہے جس میں بادل تک نہیں آتے مگر سردیوں میں کچھ بارش ہوتی ہے۔ عراق کے شمال میں کچھ پہاڑی علاقے بھی ہیں۔ مگر اس کا سب سے بڑا صوبہ (محافظۃ الانبار) جو سعودی عرب کے ساتھ لگتا ہے مکمل طور پر صحرائی ہے۔
معیشت[ترمیم]
عراق کی معیشت بین الاقوامی لوٹ کھسوٹ کی ایک اعلیٰ داستان ہے۔ معیشت تیل کے ارد گرد گھومتی ہے۔ تیل کی دولت کو پہلے تو برطانوی کمپنیوں نے خوب لوٹا۔ بعث پارٹی کی ابتدائی حکومت میں عراق برطانوی کمپنیوں سے جان چھڑا کر فرانسیسی چنگل میں پھنس گئے۔ مگر بعد میں بعث پارٹی کی دوسری حکومت نے تیل کی صنعت کو قومیا لیا اور عراق نے کچھ عرصہ ترقی کی۔ عالمی طاقتوں نے عراق کو ایران سے ایک لمبی جنگ میں پھنسا کر خوب برباد کیا۔ اس کی ساری دولت اس جنگ کی نذر ہو گئی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے عراق کو بے تحاشا اسلحہ بیچا۔ حتیٰ کہ عراق کے بیرونی قرضے ایک سو بیس ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ ایران سے جنگ بندی کے بعد تیل کی صنعت میں کچھ بہتری آئی مگر زیادہ وسائل تیل کی صنعت کی بحالی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتی رہی جس کی وجہ سے عراق خاطر خواہ ترقی نہ کرسکا۔ اس موقع پر عراق نے عالمی طاقتوں کے جال میں آ کر کویت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ اسے ایک اور جنگ اور بین الاقوامی پابندیوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اس سے عراق کی معیشت تباہ ہو گئی۔ ایک دہائی کی مسلسل پابندیوں سے عراق کمزور ہو گیا تو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ کر کے امریکا نے 2003ء میں عراق پر قبضہ کر لیا۔ اگرچہ پیرس کلب کے ممالک نے 33 ارب ڈالر کے قرضے معاف کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔[19] مگر اس سے عراق کے ایک سو بیس ارب ڈالر کے قرضوں میں کوئی خاص کمی نہیں آتی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جنگ اور خانہ جنگی کے ممکنہ خاتمے کے بعد بھی عراق کو اپنی نئے سرے سے تعمیر اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے عالمی طاقتوں اور اداروں پر انحصار کرنا پڑے گا اور مستقبل قریب میں عراق میں معاشی ترقی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ عراق کی تعمیرِ نو کے نوے فی صد ٹھیکے امریکی کمپنیوں اور باقی برطانوی اور کچھ فرانسیسی اور اطالوی کمپنیوں کو مل رہے ہیں جو مہنگا کام کرنے میں مشہور ہیں اور یوں لوٹ کھسوٹ کا ایک اور در کھل گیا ہے۔
سیاست[ترمیم]
عراق سلطنتِ عثمانیہ میں شامل تھا مگر انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم میں اس پر قبضہ کر لیا۔ ترکوں کے خلاف جنگ کے انعام میں جہاں انگریزوں نے دیگر عرب ممالک ان لوگوں کے حوالے کیے جو ہمیشہ انگریزوں کے زیر نگیں رہیں وہاں عراق کی حکومت انھوں نے 1932ء میں شریف مکہ کے بھائی شاہ فیصل کے حوالے کر دی۔ مگر اپنے فوجی اڈے اور تیل پر اپنی مکمل حاکمیت برقرار رکھی۔ اور یوں عراق بیشتر عرب ممالک کی طرح مصنوعی طور پر آزاد ہو گیا۔ 1958ء میں فوجی انقلاب آیا جس کے بعد تیل کی صنعت کو قومیا لیا گیا اور بادشاھت ختم کر دی گئی مگر آمریت برقرار رہی۔ اس میں کچھ ہاتھ مصر کے جمال عبد الناصر کا سمجھا جاتا ہے جو تمام عرب ممالک کو متحد کرنا چاہتے تھے۔ 1968ء سے 2003ء تک بعث پارٹی کی حکومت رہی جس میں صدام حسین بھی شامل تھے۔ یہ ایک قسم کی مصنوعی جمہوریت تھی۔ 2003 میں امریکا نے اتحادی فوج کا لبادہ اوڑھ کر عراق پر قبضہ کر لیا جو آج تک جاری ہے البتہ 15 اکتوبر 2005ء کو انتخابات کروا کر عراق کا نیا آئین 78 فی صد اکثریت سے منظور کیا گیا۔ جس کے تحت دسمبر میں نئی عراقی حکومت کی تشکیل کی گئی۔ عراق میں شیعہ اور سنی دونوں موجود ہیں اور اس کے علاوہ عراق عرب، کرد اور کچھ ترک نسلوں میں منقسم ہے جس کا فائدہ اتحادی افواج اٹھا رہی ہیں۔ اتحادی افواج نے مختلف طریقوں سے شیعہ اور سنی تفرقہ پھیلا کر اپنی موجودگی کا ایک جواز پیدا کیا ہوا ہے۔ حال ہی میں عراقی پولیس نے چند نقاب پوش دھشت گردوں کو پکڑا تو وہ انگریز نکلے جو ایک مسجد میں بم دھماکا کرتا چاہتے تھے۔ انھیں ایک جیل میں رکھنے کے تھوڑی ہی دیر بعد برطانوی افواج نے جیل پر ھلہ بولا اور اس کی دیواریں توڑ کر وہ قیدی رہا کروا لیے۔[20][21] موجودہ صورت حال یہ ہے کہ عراقی مزاحمت کا رخ امریکی افواج سے ھٹ کر آپس کی لڑائی کی طرف ہو چکا ہے۔ اتحادی افواج بدستور عراق میں ہیں۔ عراقی تیل ان کے مرضی سے بیچا جا رہا ہے۔ ایک پرانی غیر استعمال شدہ تیل کی پائپ لائن بھی بحال کی گئی ہے جو اسرائیل تک جاتی ہے۔ عراق میں ایک کمزور حکومت قائم ہے جو نہ امریکا کے خلاف کچھ کر سکتی ہے نہ علاقائی خانہ جنگی کو ختم کر سکی ہے۔
بیرونی روابط[ترمیم]
- عراقی سرکاری ویب سائٹ
Iraq کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ویکیپیڈیا کے ساتھی منصوبے: | |
لغت و مخزن ویکی لغت سے | |
انبارِ مشترکہ ذرائع کامنز سے | |
آزاد تعلیمی مواد و مصروفیات ویکی جامعہ سے | |
آزاد متن خبریں ویکی اخبار سے | |
مجموعۂ اقتباساتِ متنوع ویکی اقتباسات سے | |
آزاد دارالکتب ویکی ماخذ سے | |
آزاد نصابی و دستی کتب ویکی کتب سے |
ویکیپیڈیا، آزاد دائرۃ المعارف عربی زبان میں |
ویکیپیڈیا، آزاد دائرۃ المعارف کرد زبان میں |
ویکیپیڈیا، آزاد دائرۃ المعارف ارامک زبان میں |
- "عراق"۔ کتاب عالمی حقائق۔ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی۔
- عراق برائے فروخت۔ یو ٹیوب
حوالہ جات[ترمیم]
- ↑ ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اگست 2019۔ "صفحہ عراق في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap
- ^ ا ب باب: 4.1
- ↑ ناشر: عالمی بنک
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س http://data.uis.unesco.org/Index.aspx?DataSetCode=DEMO_DS
- ↑ https://www.interpol.int/Member-countries/World — اخذ شدہ بتاریخ: 7 دسمبر 2017 — ناشر: انٹرپول
- ↑ https://www.opcw.org/about-opcw/member-states/ — اخذ شدہ بتاریخ: 7 دسمبر 2017 — ناشر: تنظیم برائے ممانعت کیمیائی ہتھیار
- ↑ http://www.unesco.org/eri/cp/ListeMS_Indicators.asp
- ↑ http://www.upu.int/en/the-upu/member-countries.html — اخذ شدہ بتاریخ: 4 مئی 2019
- ↑ https://www.itu.int/online/mm/scripts/gensel8 — اخذ شدہ بتاریخ: 4 مئی 2019
- ↑ https://data.worldbank.org/indicator/NY.GDP.MKTP.CD?locations=IQ — اخذ شدہ بتاریخ: 21 اکتوبر 2018 — ناشر: عالمی بنک
- ↑ https://data.worldbank.org/indicator/NY.GDP.PCAP.PP.CD — اخذ شدہ بتاریخ: 11 جون 2019 — ناشر: عالمی بنک
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ی ے اا اب ات اث اج https://data.worldbank.org/indicator/NY.GDP.PCAP.CD — اخذ شدہ بتاریخ: 27 مئی 2019 — ناشر: عالمی بنک
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ی ے اا اب ات اث اج اح اخ https://data.worldbank.org/indicator/FI.RES.TOTL.CD — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مئی 2019 — ناشر: عالمی بنک
- ↑ http://hdr.undp.org/en/data — ناشر: United Nations Development Programme
- ↑ http://data.worldbank.org/indicator/SL.UEM.TOTL.ZS
- ↑ http://chartsbin.com/view/edr
- ↑ جریدہ سمتھسونینSmithsonian Magazine, 03/2004, Beth Py-Lieberman: Found and Lost – (دیکھنے کی تاریخ 12/9/2006)
- ↑ The World Factbook 2007 (2006): ISBN 1-59797-109-X, CIA
- ↑ Bohsem, Guido & Somerville, Glen,نومبر 2004, "G7, پیرس کلب کے ممالک کا عراقی قرضوں میں سہولت کا اعلان"، Reuters، بتاریخ 17 ستمبر 2006
- ↑ بحوالہ نذیر ناجی روزنامہ جنگ 12 مارچ 2006
- ↑ ویڈیو جس میں برطانوی فوجی دکھائے گئے ہیں جو فرقہ وارانہ فساد پھیلا رہے تھے یوٹیوب پر
ایران | ترکی | سوریہ | ||
ایران | اردن | |||
عراق | ||||
کویت ۔ خلیج فارس | سعودی عرب | سعودی عرب |